More

    بندر کے ہاتھ ماچس

    بچپن سے ہم یہ محاورہ سنتے آئے ہیں کہ “بندر کے ہاتھ ماچس”، اور کچھ عرصہ پہلے  میاں نواز شریف اور حال ہی میں خواجہ آصف کے بیانات کے بعد اس محاورے کی گہرائی کا احساس ہوا ہے۔ یہ محاورہ اپنے اندر ایک گہری حکمت رکھتا ہے جو آج کے سیاسی منظرنامے پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔

    “بندر کے ہاتھ ماچس” دراصل ایک ایسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے جہاں کسی غیر ذمہ دار، نادان ، بے وقوف ، یا خطرناک شخص کو ایسا اختیار یا وسیلہ دے دیا جائے جس سے وہ عظیم نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بندر، جو اپنی فطرت میں شرارتی، غیر متوقع اور بے قابو ہوتا ہے، اگر اس کے ہاتھ میں ماچس دے دی جائے تو وہ اپنی نادانی اور بے احتیاطی میں پورے گھر کو آگ لگا سکتا ہے۔ یہ محاورہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ اہم فیصلوں اور ذمہ داریوں کو نااہل، بے وقوف یا خطرناک لوگوں کے ہاتھوں میں دینا کتنا خطرناک ہو سکتا ہے۔

    خواجہ آصف کا حالیہ بیان کہ “ہم نے تیس سال سے امریکہ اور انگلینڈ کے کہنے پر دہشت گرد تنظیموں کو پالا اور ان کی ٹریننگ کی” ایک ایسا جھوٹا اور بے بنیاد اعتراف ہے جو پاکستان کی بین الاقوامی ساکھ کو شدید نقصان پہنچاتا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بندر کو ماچس دے کر اسے آگ لگانے کی آزادی دے دی گئی ہو۔

    پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے ہزاروں شہری اور فوجی جوان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہوئے۔ ہمارے مساجد، امام بارگاہوں ، گرجا گھر، اور گردوارے بموں سے تباہ کیے گئے۔ پاکستان نے اربوں روپے کا اقتصادی نقصان برداشت کیا۔ اور پھر اس ملک کا ایک سابق وزیر خارجہ اور موجودہ وزیر دفاع یہ کہتا ہے کہ ہم نے خود ہی دہشت گردوں کو پالا پوسا۔

    کلبھوشن یادیو کیس میں بھی میاں نواز شریف کے بیانات نے بھارت کو پاکستان کے خلاف میدان میں اترنے کا موقع فراہم کیا۔ نواز شریف نے ایک بین الاقوامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے ملک کے سامنے آنے والی ایک حساس اور حقائق سے عاری  معلومات کو عوامی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ ان کے بیان نے دشمن کو اپنے دعوے کی تصدیق کرنے کا موقع فراہم کیا۔

    اب خواجہ آصف کا یہ بیان بھارت کے ہاتھوں میں ایک اور ہتھیار بن گیا ہے۔ بھارت اس بیان کو لے کر اقوام متحدہ میں گیا ہے تاکہ پاکستان کو “روگ اسٹیٹ” کہنے کا اپنا موقف مضبوط کر سکے۔ کیا یہ ملکی سلامتی اور مفادات کے خلاف ایک سنجیدہ جرم نہیں ہے؟

    اسی طرح، نواز لیگ کے سابق اسپیکر ایاز صادق نے بھی اپنے بیان میں کہا تھا کہ “باجوہ اسمبلی میں آیا، ٹانگیں کانپ رہیں تھیں، ماتھے پر پسینہ تھا۔” ایسے بیانات ملک کے اداروں کو کمزور کرتے ہیں اور اپنے نجی سیاسی مفادات کی خاطر قومی سلامتی سے کھیلنے کے مترادف ہیں۔

    حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ ایسے سیاستدان ہیں جو اپنے بیانات کے نتائج اور اثرات کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ ان کی طرف سے دیے جانے والے بیانات بیرونی دنیا کے سامنے پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرتے ہیں اور دشمنوں کو ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔

    ہمارے ملک میں اس وقت محب وطن اور حقیقی قوم پرست لوگ جیلوں میں ہیں جبکہ وہ لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جو بین الاقوامی میڈیا کے سامنے اپنے ملک کو بدنام کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ کیا ہمارے ملک میں ایک بھی سنجیدہ اور ذمہ دار شخص باقی نہیں رہا جو این آر او، سیاسی حرام کاری، اور خطرناک بیانات سے پاک ہو؟

    ہمارے معزز اداروں سے گزارش ہے کہ اپنے موجودہ رویے پر غور کریں اور جو محب وطن اور اصلی ہیروز ہیں، انہیں جیلوں سے نکالیں۔ اس ملک کی خاطر ایک ہوجائیں اور ان بندروں کے ہاتھوں سے ماچس لے لیں جو اپنے نجی مفادات کی خاطر پورے ملک کو آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

    “ہیومن علی”

    Zahid Shakoor Ch.
    Zahid Shakoor Ch.
    Founder of Gulf Gallary LLC

    Latest articles

    spot_imgspot_img

    Related articles

    Leave a reply

    Please enter your comment!
    Please enter your name here

    spot_imgspot_img